Tuesday, December 16, 2014

Searched and Written by 
MOHAMMED OBAIDULLAH ALVI
Journalist, Historian, Bloger and Anthropologist
**************************************
Daily Aaj Peshawar, 27th April, 2014
**************************************
The Pakistan Movement as it came to be known was based on the principal of two-nation theory, the outcome of the desire of Muslims of India to establish a separate homeland for Muslims. This was a movement against oppression, perceived or real, that living with Hindu majority within combined India will not allow Muslims the opportunities that they rightfully deserve. Interestingly the Pakistan Movement was staunchly opposed by the some of Mullahs who one would have thought would be inclined to support a Muslim cause, instead the movement was spearheaded by Muhammad Ali Jinnah.

Political history of Circle Bakote

Circle Bakote is half territory of Tehsil of Abbottabad and people of area demanding to declare it as sub division since two decade. This area was a part of Gandhara, Kashmir, Punjab in past but it declare a part of Hazara, Pakistan, Khyber Pakhtunkhwa in last decade of 19th century. It was the priorities of colonial rulers to divide and rule and crush people who were demanding self-rule or right of self-determination. This area has a complete culture and civilization and a history of politics.

First Election in British India                    
General elections were held in British India in 1920, the first in the country's history. The new Central Legislative Assembly based in Delhi had 104 elected seats, of which 66 were contested and eight were reserved for Whites elected through the Chambers of Commerce. For the upper chamber, the Council of State, 24 of the 34 seats were contested, whilst five were reserved for Muslims, three for Whites, one for Sikhs and one for the United Provinces.(To be continued)

Political history of NWFP

In 1901 the North West Frontier Province (now Khyber Pakhtunkhwa) was declared as a Chief Commissioner's Province and thirty-one years later in 1932 its status was declared as a Governor's Province. In 1937, the Government of India Act 1935 was enforced in NWFP and the North-West Frontier Province Legislative Assembly formed by Sahibzada Abdul Qayyum Khan. Abdurahman Khan of Banda Pir Khan was elected first MLA of Provincial Legislative Assembly from Tehsil Abbottabad. People of Circle Bakote casted their vote in Gharhi Habibullah in this election. The first speaker was K.B Abdul Rahim Khan Kundi, who worked in this slot from 1932 to 1936 and was followed by Khan Habibullah Khan.This minority government fell shortly afterward and Dr.Khan Sahib, backed by the Khudai Khidmatgar was elected Chief Minister. His government resigned in 1939 as a part of the Indian National Congress's Quit India Movement. The provincial government remained suspended for over three years before a minority government was formed by the Muslim League Sardar Aurangzeb Khan. This government collapsed in 1944 when Dr. Khan managed to form a government again, before calling an election in 1946.
 
 Abdurahman Khan of Banda Pir Khan
 The first elected MLA of Provincial Legislative Assembly from Tehsil Abbottabad before independence.

جب قائد اعظم نے  تاریخی کوہالہ پل عبور کیا؟

یوں تو کوہسار پر گکھڑوں کے یکطرفہ اقتدار کے خلاف معرکہ آرائی اور رنجیت سنگھ کے دربار لاہور اور پھر جموں کے تہزیب و تمدن کے دشمن گلاب سنگھ کی بدکردار اور لٹیری حکومت کے خاتمہ کے بعد ہند بھر کے مسلمانوں کی طرح اہلیان کوہسار کے ہاتھ کچھ بھی تو نہ آ سکا، پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے نتیجے میں برطانوی استعمار نے جب برصغیر سے اپنا بوریا بستر لپیٹنا شروع کیا تو سوال پیدا ہوا کہ انگریزوں کے اس خلا کو کون پر کریگا، یہاں تو ایک ہزار سال تک مسلمانوں نے حکومت کی تھی، جس کی وجہ سے تمدن خور ہندوستانی تہذیب کو نئی اقدار حکومت و سماج سے آشنا ہوئی اور اس بتکدے میں ہکتا و تنہا رب الارباب کی صدائیں بلند ہوئیں..........یہی وہ دوقومی نظریہ کی اساس تھی جس نے ہندو، ہندی اور ہندوستان کا نعرہ مسترد کرتے ہوئے مسلم، اردو اور پاکستان کا فلک شگاف نعرہ لگا دیا اور قائد اعظم کی سرفروشانہ قیادت میں جنوب مشرقی ایشیا میں اسلام کا قلعہ یعنی پاکستان قائم کر دیا، جہاں آج ہم آزادی کے سانس لے رہے ہیں۔
برصغیر کے پہلے انتخابات میں مسلم لیگ کی کامیابی اور کوہسار میں ہندونواز کانگریس سمیت دیگر جماعتوں کے عوامی استرداد کے بعد یہ بات الم نشرخ ہو چکی تھی کہ ہادی دوعالم ﷺ کے پروانے مسلم لیگ، قائد اعظم اور پاکستان کے علاوہ کسی دوسرے آپشن کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں اور گکھڑوں کے آٹھ سو سالہ اقتدار کے خاتمہ، رنجیت سنگھی اور گلاب سنگھی راجواڑوں نے اہلیان کوہسار کی تہذیب و ثقافت کو لوٹنے کیلئے کتھریوں کی ایک بڑی تعداد کو یہاں لا بسایا تھا انہیں بھی معلوم ہو گیا تھا کہ اب یہاں ان کی کو ئی گنجائش نہیں رہی اور اب انہیں اس پاک سرزمین سے انخلا کرنا ہی پڑے گا۔ چنانچہ ایبٹ آباد شہر سے باہر کانگریس اور سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان سمیت دیگر مسلم لیگ مخالف جماعتوں کا کوئی اثرو رسوخ نہ ہونے کے برابر تھا، 23 مارچ 1940ء کی قرارداد لاہور جو بعد میں قرارداد پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی کی منظوری کے بعد سرکل بکوٹ کی سیاست میں تبدیلی رونما ہوئی اور سرکل بکوٹ کے کانگریس نواز جاگیردار سردار حسن خان لے بھی چولا بدلا اور مسلم لیگ جوائن کر لی اور اہلیان کوہسار نے انگریزی اقتدار کے آخری 1945ء کے الیکشن میں سرداری کی پگ اسی کے نام کر دی۔۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔۔ آزادی کے بعد 1952ء کے پہلے الیکشن میں اسے ہمیشہ کیلئے مسترد کر دیا۔ سردار حسن علی خان کی اسی یونین کونسل بوئی کے رہائشی کشمیری نژاد سید غلام حسین کاظمی نے بر صغیر کی تاریخ صحافت میں پہلی بار1936 میں ایبٹ آباد سے ہفت روزہ پاکستان کے نام سے اخبار نکال کر پاکستان کا پیغام عام مسلمانوں تک پہنچانے کی کوشش کی، چوہدری رحمت علی تو اس وقت تھرد ائر کے سٹوڈنٹ تھے۔ ان کا یہ دعویٰ بلکل درست نہیں کہ وہ لفظ پاکستان کے خالق ہیں بلکہ پاکستان کا نام تو سرکل بکوٹ کے ایک پسماندہ دیہاتی علاقے بوئی کے سید غلام حسین کاظمی کے ذہن کی اختراع ہے، جدید علمی تحقیقات نے بھی اس کی تصدیق کر دی ہے۔(تفصیلات کیلئے دیکھئے Pakistan Chronicle از عقیل عباس جعفری بحوالہ روزنامہ جنگ راولپنڈی، 16اگست2012ء)
قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی منزل جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمانوں کو چند قدم کے فاصلے پر نظر آنے لگی لیکن ابھی حصول منزل کیلئے کافی جد و جہد کی ضرورت تھی، سحر پیدا کرنے کیلئے ابھی ہزاروں ستاروں اور سیاروں کی قربانی پیش کی جانی تھی۔
شمالی پنجاب میں مسلم لیگ کی مقبولیت اور کانگریس و حکمران یونینسٹ پارٹی کے زوال کے آثار نمایاں تر ہوتے جا رہے تھے، جوہر لال نہرو اس صورتحال سے پریشان تھے۔ اس سلسلے میں وہ کشمیر کے راستے کوہسار آنے کیلئے کوہالہ پل پر پہنچے ، مگر کوہسار کے مسلمانوں نے محارہ کے طور پر نہیں بلکہ عملی طور پر تھپڑ رسید کر کے نہرو کو غربی کوہالہ میں قدم بھی رکھنے نہیں رکھنے دیا اور اسے وہاں سے ہی واپس دہلی جانا پڑا، یہ تھپڑ بھی قیام پاکستان کی نا گزییریت کی ایک اینٹ تھی، قائد اعظم محمد علی جناح نے اس خطہ کے لوگوں اور اپنے جانثاروں سے براہ راست رابطے کیلئے یہاں آنے کا پروگرام بنایا، آپ جولائی 1944ء میں کشمیر کے راستے کوہالہ کے قریب برسالہ کے مقام پر پہمچے، قائد کی جھلک دیکھنے کیلئے غربی کشمیر، سرکل بکوٹ اور مری کے کوہساروں کے چپہ چپہ سے لوگوں کا سمندر امڈ آیا تھا، قائد اعظم کی کار کو کوہسار کے پھولوں سے لاد دیا گیا تھا، قائد نے یہاں چائے نوش جاں کی اور پھر آدھے گھنٹے بعد کوہالہ پل پر پہنچے تو اہلیان کہسار ان کے ہاتھ چومنے کیلئے آگے بڑھنے لگے، کوہالہ کا یہ تاریخی پل پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونجھنے ، 

عبدالکریم خان آف باسیاں

آپ نے ہاتھ ہلا ہلاکر پاکستان کے متوالوں کے سچے اور سُچے جذبات کو سراہا،اس موقع پر آپ کو موجودہ ڈاک بنگلہ کوہالہ کے مقام پر باسیاں کے عبدالکریم خان نے استقبالیہ بھی دیا جس میں بیروٹ سے تعلق رکھنے والے پہلے مسلم لیگی اور یو سی بیروٹ سے موجودہ رکن ضلع کونسل خالد عباس عباسی کے والد بزرگوار ۔۔۔۔ عباس خان عرف مہندو خان نے اہلیان بیروٹ کی طرف سے ہزاروں روپے کا چندہ بھی مسلم کے فنڈز میں دیا ۔۔۔۔۔۔ سرکل بکوٹ کے ہزاروں افراد کا قافلہ ان کے ساتھ دیول تک ساتھ آیا۔نور الٰہی عباسی اپنی کتاب تاریخ مری (نیا ایڈیشن) کے صفحہ نمبر 185پر لکھتے ہیں۔
اس موقع پر لوئر دیول کے بزرگ رہنما امیر احمد خان صفوں کو چیرتے ہوئے آگے نکل کر قائد اعظم کے قریب پہنچنے میں کامیاب ہو گئے، انہوں نے بصد خلوص احترام پھولوں کا گلدستہ پیش کرتے ہوئے دھیمی آواز میں کہا کہ برگ سبز است، تحفہ درویش است، (ایک بزرگ کی طرف سے سبز پتوں کا تحفہ قبول کر لیجئے) یہ کہتے ہوئے بابا امیر خان کی نظریں بابائے قوم کے چہرے پر مرکوز ہو گئیں ۔۔۔۔۔ قائد اعظم نے بابا جی سے پوچھا۔
بابا جی بتائیں میں کون ہوں اور میرا مشن کیا ہے؟
جی آپ مسلمانوں کے عظیم رہنما اور قائد اعظم محمد علی جناح ہیں اور برصغیر کے مسلمانوں کے لئے آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں۔۔۔۔۔ بابا احمد خان نے بڑی متانت سے جواب دیا۔

عباس خان آف بیروٹ خان
قائد اعظم نے مری پہنچ کر جو تقریر کی وہ اگرچہ انگریزی زبان میں تھی اور اس کا مری کے ممتاز مسلم لیگی رہنما خواجہ محمود احمد منٹو ساتھ ساتھ اردو میں ترجمہ بھی کر رہے تھے (یہ تقریر پاکستان نیشنل آرکائیوز اسلام آبادکے ریکارڈ میں موجود نہیں) نور الہی عباسی ہی اس کے راوی ہیں، اپنی کتاب تاریخ مری میں لکھتے ہیں۔
۔۔۔۔ میں جانتا ہوں مری کا پتہ پتہ مسلم لیگی ہے جبکہ ہمیں ہندو کانگریس اور انگریز سامراج کا سامنا ہے،،چکی کے یہ دو پاٹ ہمیں پس دینے پر تلے ہوئے ہیں،آپ دونوں کے درمیان لوہے کے چنے بن جائیے تاکہ پس نہ جائیں۔ (، اس موقع پر راجہ کالا خان نے نہ صرف قائد اعظم کی میزبانی کی بلکہ انہیں قبائل کوہسار کی طرف سے مسلم لیگ کے فنڈ میں ایک لاکھ روپے کا چیک بھی پیش کیا )۔
قائد کا کوہسار سرکل بکوٹ اور مری کا یہ پہلا اور آخری دورہ تھا، آپ کے اس دورے کا اثر یہ ہوا کہ یہاں مقیم کانگریسیوں کے حوصلے پست ہو گئے، علاقے میں ایک نیاجوش و ولولہ دوڑ گیا اور واقعی کوہسار کا پتہ پتہ مسلم لیگی ہو گیا، اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمانوں کی عید آزادی کی صبح نمودار ہو گئی۔۔۔۔لیکن آج 70 سال بعد وہ خواب جسے اقبال اور قائد اعظم نے دیکھا تھا اس کی تعبیر معکوس نے قوم کو مایوسیوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔۔۔۔ کیا خلد بریں میں موجودہ پاکستانی حالات پر قائد اور اقبال کی روح تڑپتی نہ ہو گی؟
1946 Election
Tehsil Abbottabad was divided in to two constituencies as Abbottabad West (NW-4) and Abbottabad East (Circle Bakote, Garhi Habibullah and Bala Kot) as NW-5. Zain Mohammed Khan won in NW-4 with 98.7 and Sardar Abdu u Rahman of Lora, with 91.04 turn out. Both condites were from All india Muslim League. This was the last and least election under British Indian Authorities. 

Dr. Khan Government of 1946
Dr> Khan got support of 30 members in Assembly in which one dozen was Hindus who migrated to India in 1947 and he elected as last Chief Minister of NWFP of united India. He was a All India Congress Muslim leader in NWFP who refused to salute to Pakistani national flag on 14th August, 1947. His workers shouted the slogens of Pakhtonistan at his residence Charsada. Quaid e Azam Mohammed Ali Jinnah, the Governor General of Pakistan noticed this and dismissed his government on 22nd August, 1947. Mian Jafer Shah, a member of Lagislative Assembly left All India Congress and announced to get membership in All India Muslim League. A active member of Abbottabad Faqira Khan Jadon participate a golden political charactor during Pakistan Movement in Hazara. He was always host of Muslim League leadership including Mohammed Ali Jinnah when he came in Abbottabad.
 

Political history of Circle Bakote

M O Alvi Urdu artical related to politics of Circle Bakote

See also Political History of Pakistan

Circle Bakote is half territory of Tehsil of Abbottabad and people of area demanding to declare it as sub division since two decade. This area was a part of Gandhara, Kashmir, Punjab in past but it declare a part of Hazara, Pakistan, Khyber Pakhtunkhwa in last decade of 19th century. It was the priorities of colonial rulers to divide and rule and crush people who were demanding self-rule or right of self-determination. This area has a complete culture and civilization and a history of politics.(To be continued)

Local Bodies System of 2014

PTI Government in 2014 introduce and divided Union Councils in to Village Councils. According new map of UCs and VCs the final list as issued by Abbottabad Authorities as under: (Read More)

Bakote......... 17th October, 2014
On 16th Dec, 2013

 On 26th Dec, 2013

 On 5th Jan, 2014
 10th Feb, 2014
NA 17 ڈاکٹر اظہر جدون NTN: - -4NO4117825 نے مبلغ صرف 17875 روپے ٹیکس ادا کیا ہے NA 18 مرتض جاوید NTN, No 22689823-0 n نے صرف مبلغ 117553 روپے ٹیکس ادا کیا۔ جبکہ NA 50 شاہد خاقان عباسی NTN NO 0660505-2 نے مبلغ 1205974 روپے ٹیکس جمع کروایا ہے۔ اسی طرح PP: 1 راجہ اشفاق سرور NTN NO 0657478-4 نے صرف 26600 روپے ٹیکس حکومت کے خزانے میں جمع کروایا ہے۔ PK 45 سردار مہتاب احمد خان NTN NO: 0991906-6 نے 153844 روپے ٹیکس ادا کیا ہے جبکہ PK 48 سردار محمد ادریس NTN No  نے صرف 3500 روپے ٹیکس اد کیا 
 
The famous political poem of Molana Alvi Birotvi in first Circle Bakote Election of 1952
 
Pir Haqiq ul allah Bakoti
public meeting at Birote
as narrated by
Syed Masoom Ali Shah
on 29th Dec, 1951.

Pir Haqiqullah Bakoti was the younger son of Hadhrat Molana Pir Fakir-u-llah Bakoti and became one of the first members of the North-West Frontier Province's legislative assembly (MLA) from the Circle Bakote area. He was a custodian of the Pir Bakoti shrine - a position he inherited from his father. He was a student of the Islamic University ofDeobandIndia and got direct education by renowned Islamic scholar Anwer Shah Kashmiri, Hussain Ahmed Madni and Ashraf Ali Thanvi. His elder brother Sahibzada Pir Atiqullah Bakoti was not interested in politics and he died in his youth. He took part in the elections of 1952 and won election with a landslid victory as an undisputed candidate of NWFP Assembly from Circle Bakote and defeated Banba-Khakha Sardar Hasan Ali Khan (Grand Father of Abdul Qayom Khan of Boi). He moved a motion in respect of Sharia Law in NWFP assembly first time. He organized Anjuman-e-Kashmeriaan (Association of Kashmiries) in Bakote in 1942. He received and met Quad-e-Azam Mohammed Ali Jinnah at Western Kohala with delegates of dignitaries of Murree and Circle Bakote . He placed the flag of the newly borne Islamic Republic of Pakistan on Kohala Bridge with Sardar Yaqoob Khan, Molana Yaqoob Alvi Birotvi, Lamberdar Isab Khan and many others. He led and participated in the great public procession in Murree. He died in July 1968 and was buried on the left side of his father Hadhrat Pir Faqir-u-llah Bakoti. He was succeeded by Sahibzada Pir Mohammed Azhar Bakoti. (Read More)
 Lahore: Raja Abdurehman addressing on
 historical occasion of
Pakistan Resulution on 23rd March, 1940.
He was representing a delegation from district Hazara.
 
Sardar Anayturahman Abbasi
The first MNA of Circle Bakote and Circle Lora in West Pakistan Assembly during 1962 to 1968. For more detailes read his Book and visit UNION COUNCIL BIROTE IN PICTURE.
Sardar A Abbasi an
historical peach in Assembli in 1963



****************************************
NOW GOVERNOR KHYBER PEKHTONKHWA
has taken oath as the Gorerunner for the Khyber-Pakhtunkhwa  on Tuesday, April, 2014
Daily Aaj Abbottabad, 24th April 2014
****************************************

SARDAR MEHTAB AHMED KHAN
The most influential national leader from Circle Bakote since 1985 todate.

1997 - Sardar Mehtab Abbasi
 taking oath as Chief Minister NWFP (KPK)


Urdu articles of M O Alvi related to Sardar Mehtab 27 years of his political evolution


Sardar Mehtab Ahmed Khan (born 15 December 1952 in Malkot, proposed sub division Circle Bakote) Abbottabad District to a Hindko speaking family of Hazara) is a Pakistani politician and former Chief Minister of Khyber-Pakhtunkhwa from 1997 to 1999 and Federal Minister for Railways in the 2008 PM Yousaf Raza Gillani cabinet.[1] He is politically affiliated with PML-N, where he is the Senior Vice President. He has served as a senator from March 2003, but resigned on March 17, 2008, when he won the NA-17 Abbottabad-I National Assembly seat in the 2008 general election, held on February 18, 2008. He has lost his MNA ship in 2013 Election. Now he is an MPA of PK-35 only and Apposition Leader in KPK Assembly.    (Read also Sardar Mehtab Khan assets report of 2008-09 on page 33 of NA-17)

Dr Azher Jadon, MNA NA 17

He introduced defeat to Sardar Mehtab first time in his life
in 2013 election
......... Next picture of Circle Bakote in new political scenario
Sardar Freed Khan, first cousin of Sardar Mehtab and new MPA of Circle Bakote

 Saeed Ahmed Abbasi
Amir Jamaet e Islami, District Abbottabad


Saeed Ahmed Abbasi سعيد احمد عباسى is head ofJamaat-e-Islami,[1] Abbottabad,[2] Pakistan, elected in mid 2010. He is an educationist, a politician and a social worker. He has a rich family background and his family have served Pakistan in different fields. Mohammed Hanif Abbasi is a member of the National Assembly of Pakistan, Iftekhar Abbasi is the Ambassador of Pakistan in Kuwait, Commander Aziz Khan, first high official of Pakistan Navy from Circle Bakote, Haji Sarfraz Khan was Accountant General of Pakistan in President General Ayub Khan era[3] and Tahir Faraz Abbasi was Ex Nazim local Union Council Birote all belonged to his KHANAL sub tribe of Dhund Abbasi tribe of Circle BakoteMurreeand Azad Kashmir. (Read more)
 Tahir Fraz Abbasi, Ex Nazim Birote and senior leader of PTI Abbottabad
 
Haji Sarfraz Khan
King maker of Circle Bakote
Raja Mobin Khan
Ex Member District Council Abbottabad
Raja Abd u Rahaman Abbasi
Sardar Haseeb Abbasi Advocate
Sahibzada Pir Mohammed Azher Bakoti

 Habeeb u Rehman Abbasi Advocate (Jamat e Islami PK 45)
He transered his basic membership of Jamaet e Islami in Rawalpindi after political defeat of 2013 Elections
 
 Sardar Fida Khan, Ex MPA
 Sardar Gulzar Abbasi of Sangel, Peoplz Party MPA of 40 days in 1977 in NWFP Assembly
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے ۔۔۔۔۔سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
-----------------------

آہ ۔۔۔۔ سردار گلزار خان عباسی

----------------------
سرکل بکوٹ پر 35 سال تک حکمرانی کرنے والے سردار مہتاب احمد خان نے تسلیم کیا تھا کہ ۔۔۔۔ سردار گلزار خان ان کے سیاسی استاد ہیں
*****************************

خراج عقیدت
محمد عبیداللہ علوی 
آف بیروٹ
*****************************
روزنامہ محاسب ایبٹ آباد ۔۔۔۔۔ 23ستمبر، 2018
وہ ۔۔۔۔ 1977ء میں پیپلز پارٹی کا سرکل بکوٹ میں سب سے بڑا رہنما اور 40 روز کا سرحد اسمبلی میں ایم پی اے بھی تھا ۔۔۔۔ وہ امیرالمومنین جنرل ضیاءالحق کے کوڑوں سے ۔۔۔ کرپشن ثبوت نہ ملنے پر بال بال بچا تھا  ۔۔۔۔ اس نے سرکل بکوٹ کے ہر صوبائی اور قومی الیکشن میں حصہ لیا مگر سیاسی ٹرینڈز تبدیل ہونے کے باعث کامیاب تو نہ ہو سکا مگر اس نے سرکل بکوٹ کی سیاست میں جو شریفانہ، وضعدارانہ اور مہذب انداز، طریقہ اور اسلوب متعارف کرایا اس پر ۔۔۔۔ کے پی کے کے سابق گورنر، وزیر اعلیٰ اور 35 سال تک بلا شرکت غیرے سرکل بکوٹ پر حکمرانی کرنے والے ۔۔۔۔ سردار مہتاب احمد خان ۔۔۔۔ کو بھی کہنا پڑا کہ ۔۔۔ سردار گلزار میرے سیاسی استاد ہیں ۔۔۔۔
    یو سی نمبل کے سردار گلزار خان ۔۔۔۔ نے 1970ء کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی کے امیدوار کی حیثیت سے سرکل بکوٹ کی سیاست میں انٹری ڈالی ۔۔۔۔ اس وقت سرکل بکوٹ کی سیاست میں سردار حسن علی خان کے فرزند خان عبدالقیوم خان آف بوئی، ملک بشیر، ملکوٹ سے حاجی سردار خان، بکوٹ سے سردار آزاد خان اور قومی اسمبلی میں سردار عنایت الرحمان آف لورہ اور ایبٹ آباد میں اقبال خان جدون کا طوطی بولتا تھا ۔۔۔ اگرچہ ان انتخابات میں وہ  کامیاب تو نہ ہو سکے مگر ان کا سیاسی شریفانہ انداز سیاسی منظر نامے پر اپنے نقوش ضرور ثبت کر گیا  ۔۔۔۔ 1977ء میں ان کی سیاسی مقبولیت سر چڑھ کر بولنے لگی، وہ ذولفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی کے سرکل بکوٹ میں سردار گلزار خان قائد اعظم تھے ۔۔۔۔ بیروٹ کے ممتاز نون لیگی رہنما راجہ حیدر زمان خان، راقم کے چچا اور مفتی سرکل بکوٹ حضرت مولانا عبدالہادی علویؒ، باسیاں سے پی ٹی آئی کے موجودہ کارکن زریں عباسی، بکوٹ سے صاحبزادہ پیر محمد ازہر عثمانی بکوٹیؒ، عثمان عباسی اور اسی طرح کے بھاری بھر کم لیڈر سردار گلزار خان خان کے دست و بازو تھے ۔۔۔۔ سرکل بکوٹ کے ہر پختہ و ناپختہ گھر کی چھت پر پیپلز پارٹی کا ترنگا لہرا رہا تھا اور ہر طرف  ۔۔۔۔ ہماری معیشت سوشلزم  ۔۔۔۔کے نعرے گونج رہے تھے۔۔۔۔ ان الیکشنز میں پیپلز پارٹی 10,148,040 ووٹ لیکر کر مرکز میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ گئی ۔۔۔۔ سردار گلزار خان نے بھی سرکل بکوٹ میں جماعت اسلامی اورکنونشن ایوبی مسلم لیگ کے مقابلے میں 17 فیصد زائد ووٹ لیکر تاریخ پاکستان کے دوسرے ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ۔۔۔۔ پشاور جا کر حلف اٹھایا اور اس کے ٹھیک چالیس روز بعد جنرل ضیاء نے اسمبلیاں توڑ دیں اور سردار گلزار خان واپس نمبل اپنے گھر آ گئے ۔
سردار گلزار عباسی کا سفر آخرت
    
گزشتہ سے پیوستہ  بلدیاتی انتخابات میں انہوں نے ضلع کونسل کے الیکشن میں حصہ لیا اوریو سی نمبل سے کامیاب قرار پائے اس عرصہ کے دوران ۔۔۔۔ ان کے گرائیوں کے مطابق سردار گلزار خان نے اپنی بساط کے مطابق ضلع کونسل میں سے باوجود سردار شیر بہادر کی ہٹ دھرمی کے اتنے فنڈز ضرور لائے کہ ۔۔۔۔ اہل یو سی نمبل کے کچھ نہ کچھ مسائل ضرور حل ہوئے ۔۔۔۔ آجکل ان کے صاحبزادہ سردار غضنفر علی عباسی ضلع کونسل ایبٹ آّباد میں اپنی یو سی کی نمائندگی کر 
رہے ہیں ۔
    سرکل بکوٹ میں ان کی وفات سے جو شرافت کی سیاست کا خلا پیدا ہو گیا ہے
ایبٹ آباد ۔۔۔۔۔۔ 1970ء میں سردار گلزار خان اپنے قائد ذوالفقار علی بھٹو مرحوم 
کے ساتھ
 وہ مدتوں پر نہیں ہو سکے گا ۔۔۔۔ اللہ تبارک و تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام، ان کی بشری لغزشوں کو معاف اور ان کی آخرت کی منزلیں آسان فرماوے ۔۔۔ آمین
 
****************************

سردار گلزار خان کے جنازے میں پپلیوں کی عدم شرکت
کئی سوالات چھوڑ گئی

------------------------------
ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کیلئے ۔۔۔۔ سردار گلزار ۔۔۔۔ کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں۔
------------------------------
سرکل بکوٹ سمیت کوہسار بھر میں ۔۔۔۔ مرنے والے کو فراموش کر دیا جاتا ہے مگر آیا گیا نہیں بھولتا ۔۔۔۔ اب یہ بھٹو کی نہیں ، زرداریوں کی پیپلز پارٹی ہے ۔
*********************************
روزنامہ آئینہ جہاں اسلام آباد، پشاور
    سرکل بکوٹ کے پسماندہ علاقے یو سی نمبل سے اپنی قابلیت اور سیاسی بصیرت کے بل بوتے پر طلوع ہونے والے مدبر رہنما اور شرافت کی سیاست کے استعارے ۔۔۔۔ سردار گلزار خان ۔۔۔۔ کی وفات پر علاقے کے انسانوں کے علاوہ یہاں کے پتھر بھی آنسو بہا رہے ہیں مگر ۔۔۔ پیپلز پارٹی کو اطلاع ہونے کے باوجود صوبائی اور قومی قیادت سمیت چھوٹے بڑے پپلیوں نے سردار گلزار خان کی وفات پر ان کے جنازہ میں شرکت تو دور کی بات ۔۔۔۔۔ ان کے اہل خانہ سے تعزیت بھی نہیں کر سکے ہیں ۔۔۔۔۔ ان پپلیوں کی یہ توتا چشمی کوئی نئی بات نہیں ۔۔۔۔ بھٹو کے اوپر جانے کے بعد بے نظیر بھٹو کے دور میں اس بے وفا اور پی ٹی آئی میں تحلیل شدہ پارٹی میں کچھ رکھ رکھائو تھا لیکن ان کی راولپنڈی میں ہلاکت کے بعد جب سے یہ زرداریوں کے چنگل میں آئی ہے تو اسے بلاول ہائوس کی کنیز بنا دیا گیا ہے ۔۔۔۔۔ کیلالا، لوئر باسیاں والے سید ظفر الحق شاہ ہوں یا گوجر خان کا قاضی سلطان محمود ۔۔۔۔۔ جنہوں نے بھی اس زرداریانہ پارٹی کیلئے خون جگر دیا اور کوڑے بھی کھائے مگر ان دونوں کے جنازے کو بھی پپلیوں نے کندھا دینا مناسب خیال نہیں کیا تھا ۔
    سرکل بکوٹ سمیت پوری وادی کوہسار میں کہا جاتا ہے کہ ۔۔۔۔ مرے آلا پُہلی گشناں، پر آیا گیا نا پُہلناں ۔۔۔۔ ایسے ہی سردار گلزار خان کے جنازے میں اس پارٹی کے کسی بھی پپلیئے کی نماز جنازہ میں عدم شرکت ۔۔۔۔ اہل سرکل بکوٹ ۔۔۔۔ کبھی بھی نہیں بھولیں گے، آپ ملک کی کسی بھی پارٹی کو دیکھیں کہ  اس کی قیادت اپنے چھوٹے سے چھوٹے کارکن کی دکھی سکھی میں ان کے ساتھ ہوتی ہے ۔۔۔ جماعت اسلامی کی بات کریں تو جب تک قاضی حسین احمد زندہ رہے، بذات خود اپنے کارکنوں کے  جنازوں میں شرکت کرتے رہے ۔۔۔ سراج الحق تو سب سے زیادہ دکھ کی ہر گھڑی میں کارکنوں کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں ۔۔۔ مسلم لیگ نون سرکل بکوٹ میں اپنے چھوٹے بڑے ورکرز کے جنازوں میں شرکت کیلئے پہل کرتی ہے اور اس حوالے سے سرکل بکوٹ کے بیدار مغز صحافی اس پر نکتہ چینی بھی کرتے ہیں کہ اس جماعت کے بڑوں کی مصروفیات جنازوں میں شرکت اور تقریبات عروسی میں دولہا دلہن کے ساتھ فوٹو سیشن سے آگے نہیں بڑھی ہیں ۔۔۔۔ یو سی بیروٹ میں غدار الطاف کی ایم کیو ایم کے اکلوتے کارکن  ۔۔۔۔ چن زیب عباسی ۔۔۔۔ تھے، جب بھی کراچی میں اس جماعت کا کوئی فنکشن ہوتا تو انہیں ریٹرن ٹکٹ بھیجا جاتا تاہم جب غدار الطاف کی گندی زبان نے مملکت پاکستان کو گالی دی تو اسی وقت چن زیب عباسی نے ایم کیو ایم کو کک آئوٹ کر دیا ۔۔۔۔ یہ بات درست ہے کہ کسی کے آنے جانے سے دنیا سے جانے والا شخص واپس نہیں آ سکتا  ۔۔۔ لیکن میت کے اہلخانہ کو اس آمد و رفت سے اتنا حوصلہ ضرور ملتا ہے کہ صاحب قبر نے ان کیلئے جو قربانیاں دیں ۔۔۔۔ اسے تسلیم کرنے والا بھی کوئی موجود ہے ۔۔۔۔ یہ الگ بات ہے کہ نون لیگ بیروٹ کے خالد عباسی، قاضی سجاول خان، نمبردار گلاب خان، سابق ناظم آفاق عباسی، موجودہ نائب ناظم عتیق عباسی اور راجہ حیدر زمان نے میرے چھوٹے بھائی اور ٹیچر محمد سمیع اللہ علوی کی نماز جنازہ میں اس لئے شریک نہیں ہوئے تھے کہ ۔۔۔۔ عبید اللہ علوی ۔۔۔۔ ان کی سیاسی پالیسیوں کا پوسٹ مارٹم کر کے ان کی حکمت عملی کو طشت از بام کرتا تھا ۔۔۔۔؟ اس کے باوجود کہ راقم  کے اس دکھ کے لمحات میں وی سی بیروٹ کلاں میں سیاسی خانوادے کے تیسرے فرد اور چیئرمین ۔۔۔ ندیم عباسی ۔۔۔۔  اور نون لیگ کے یو سی بکوٹ میں بھاری بھر کم شخصیت صاحبزادہ حضرت پیر محمد زائر بکوٹی نے اپنا ووٹر نہ ہونے کے باوجود نہ صرف  میرے بھائی کی نماز جنازہ میں شرکت کی بلکہ حوصلہ بھی دیا ۔۔۔۔ کچھ دیگر جماعتوں کے راہنمائوں نے راولپنڈی میں میرے غریب خانے اور آفس میں آکر دعا بھی کی اور میرے اس دکھ کو بانٹا بھی ۔۔۔۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سب کو جزائے خیر دے ۔۔۔۔ آمین
    سردار گلزار خان بھی ۔۔۔ سرکل بکوٹ کے ہر جنازہ میں شرکت کرنے کی بھرپور کوشش کرتے تھے ۔۔۔ اس حوالے سے ان کی میت اور اب ان کی دائمی آرام گاہ پر حاضری دیکر ان کے ایصال ثواب کیلئے اول آخر درود شریف کے ساتھ ۔۔۔۔ سورہ فاتحہ اور تین بار سورہ توحید ۔۔۔۔ کی تلاوت  کا تحفہ بھی انہیں آخرت کے اس سفر میں بھیجا جا سکتا ہے ۔۔۔۔ یہ دعائے مغفرت، صاحب قبر کے لواحقین سے اظہار تعزیت اور ان کے غم کا بٹوارہ بھی ایک ادھار ہے کیونکہ جو صاحب قبر کے لواحقین سے اپنی علاقے میں موجودگی اور بلا کسی عذر کےاظہار تعزیت نہیں کرتا ۔۔۔ ایصال ثواب کیلئے بارگاہ رب العزت میں ہاتھ نہیں اٹھاتا ۔۔۔ اس کے جنازہ کے ساتھ چار قدم نہیں چلتا ۔۔۔۔ تو وہ سیاسی، سماجی یا دولت کے انبار کی وجہ سے خواہ کتنا بڑا کیوں نہ ہو ۔۔۔۔ وہ بھی اپنے مسلمان بھائیوں کی دعائے مغفرت، تلاوت قرآن کے ایصال ثواب اور بعد از وفات اپنے کسی بھی حوالے سے اچھے ذکر کیلئے اپنی لحد میں ترستا رہتا ہے اور زبان حال سے کہتا ہے کہ ۔۔۔۔

  
برمزار ما غریباں، نے چراغ و نے گُلے
نے پر پروانہ سوزد، نے صدائے بلبلے
آخری مغل حکمران نے اپنی دادی اور اورنگزیب عالمگیر کی صاحبزادی ۔۔۔۔ زیب النساء ۔۔۔۔ کے اس فارسی شعر کا اپنی زندگانی کے آخری لمحات میں یوں ترجمہ کیا ہے کہ نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
کسی کے کام جو نہ آ سکے میں وہ ایک مشت غبار ہوں
پئے فاتحہ کوئی آئے کیوں کوئی چار پھول چڑھائے کیوں
کوئی آ کے شمع جلائے کیوں میں وہ بیکسی کا مزار ہوں
اللہ رب العزت سردار گلزار خان سمیت تمام مسلمانوں کی مغفرت فرماوے ۔۔۔ اور آخرت کی منزلیں آسان کرے ۔۔۔ آمین
--------------------
پیر24/ستمبر2018

 Sardar Shamon Yar Khan,  
Sardar Mehtab's son and MPA in 2008-12
 Tahir Amin Abbasi is also a leader of Tehrik e Insaf in Circle Bakote

REFERENCES
  1. Political History of NWFP 1988-99 by Mohahammed Shakeel Ahmed (a PhD thesis) in NIPS, Quaid E Azam University Islamabd in 2010

EXTERNAL LINKS